Novel Mr Possesive's Love
Writer: Dia Zahra
قسط نمبر 31
تیری تلخیوں میں اے زندگی
بہت ہی تلخ ہو چکے ہیں ہم
اتنے دکھ نا دے اے زندگی
کہ تجھے جی نا پائیں ہم ۔۔۔!
تیری رنجشوں میں اے زندگی
کہی ہنسنا نہ بھول جائیں ہم
تجھ سے بیزار ہو کر اے زندگی
خود سے روٹھ نا جائیں ہم
تجھے گزارتے گزارتے اے زندگی
خود ہی نا گزر جائے ہم۔۔!!
اس نے اپنا ریزگنیشن لیٹر اٹھایا اور اس اڈریس کی طرف چل پڑی جہاں وہ شخص شاید اسی کے انتظار میں تھا ٹیکسی سے باہر نکلتے اس نے سر اوپر اٹھا کر اس سترہ فلور کی بنی بلڈینگ کو دیکھا ۔۔
وہ سر نیچے جھکائے تلخی سے ہنسی وہ اس سے مقابلہ کرنا چاہتی تھی لیکن کتنا مشکل ہوتا ہے ۔
"چاہنے کے بعد بھی وہ چیز نا کر پانا اور بے بس ہو جانا دل رونے لگتا ہے ۔۔"
وہ اندر بڑھ گئی اس نے صرف اسے کیوں رکھا تھا وہ اچھے سے جانتی تھی اس شخص نے اس لڑکی کے پیچھے ایک ڈوبنے والی کمپنی خرید لی تھی ۔۔
اور جازب کمال کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا تھا لیکن آج وہ کر آیا تھا فقط اس لڑکی کے لیے وہ نقصان اٹھا کر آیا تھا ۔۔۔
وہ اندر داخل ہوئی ریسیپشن پر پہنچ کر اس نے اپنا نام بتایا تھا لوگوں کی خود کی طرف اٹھتی نظریں اسے عجیب لگی لوگ اس لیے اسے دیکھ رہے تھے کہ وہ عام سے پہناوے میں تھی ۔۔۔
" پتہ ہے آج کل کی دنیا میں جو دیکھتا ہے وہی بکتا ہے ۔۔! ڈونٹ جج آ بُک بائے اٹس کور " یہ پرانی بات ہو چکی ہے آج کی دنیا میں کتاب کے کور کو دیکھتے ہی سوچا جاتا ہے اسے پڑھا جائے یا نہیں "۔۔؟؟
ریسپشن پر موجود لڑکی نے فون کان سے ہٹاتے اسے اوپر سیون فلور پر جانے کو بولا تھا وہ سر ہلاتی لفٹ کا پوچھتے اس جانب بڑھ گئی ۔۔۔
سیون فلور پر پہنچتے اس نے آنکھیں بند کر کے کھولی وہ گرنا نہیں چاہتی تھی اتنی جلدی ۔۔؟؟ کبھی نہیں ۔۔۔! وہ اس کے منہ پر مارے گی اپنا استعفیٰ وہ اسے بتائے گی وہ غلام نہیں ہے اس کی ۔۔۔
وہ یمن وحید ہے اور اسے طوفانوں سے لڑنا اس کی ماں سیکھا کر مری تھی ۔۔۔!!
مظبوط قدم اٹھاتی اس نے لوگوں کی نظریں اگنور کی آصف نے اسے دیکھتے تیزی سے اس تک آتے اسے اس شخص کا آفس روم بتایا تھا وہ سر ہلاتی وہاں سے ہٹ گئی ۔۔۔
دروازہ بغیر ناک کرتے وہ اندر داخل ہوئی کرسی کی بیک سے سر ٹکائے وہ ہلکی مسکراہٹ سے شاید اسی کے انتظار میں تھا ۔۔۔
"آ گئی تم ریڈ روز "۔۔۔!!
اس کے لہجے میں پر سکونی تھی اطمینان تھا وہ کتنا عجیب تھا تھوڑے گھنٹے پہلے وہ اسے مارنے والے تھا اور اب وہ اتنے اطمینان سے اسے مخاطب کر رہا تھا ۔۔۔۔
آنکھیں اب بھی بند تھی وہ اس کے خود کو "ریڈ روز " کہنے پر ہی جامد ہوئی تھی وہ الفاظ عام سے تھے لیکن جس انداز میں انہیں ادا کیا گیا تھا وہ لہجہ ۔۔!!
وہ عام نہیں تھا جانے کیوں اس لہجے میں جذبوں کی تاثیر تھی ۔!
"وہ جازب کمال تھا اور اپنے نزدیکی لوگوں کو وہ آہٹ سے بھی پہچان لیتا تھا چاہے وہ نزدیکی دشمن ہو یا دوست ۔۔"
"ویسے تو تم نے کمپنی خریدی ہے ایمپلائز نہیں لیکن کمپنی تمھارے انڈر ہے تو یہ پکڑو میرا استعفیٰ"۔۔۔۔
اس نے غصے سے لب بھینچتے پیپر اس کی جانب اچھالا جو ہوا میں اڑتا اس کی ٹیبل پر جا گرا اس نے یکدم آنکھیں کھولی تو وہ وہی نظریں اس کی کالی آنکھوں پر روک گئی ۔۔۔
"اففففف تمھاری یہ جلد بازیاں ۔۔۔!! دوری اختیار کرنے کی اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔۔۔؟؟
سیٹ پر سر کے پیچھے دونوں بازو فولڈ کر کے رکھتے وہ گہری مسکراہٹ سے بولا چہرے پر اطمینان اب بھی تھا ۔۔۔
" میں تمھارا نیا بوس ہوں ۔۔۔!! ٹھیک ہے تم جا سکتی ہو دس لاکھ میرے مینجر کو دو اور جاؤ تین ماہ پہلے بغیر اطلاع کے جاب چھوڑنے پر پینلٹی ادا کرو اتنا بڑا نقصان میں افورڈ نہیں کر سکتا "۔۔
وہ گہری سانس خارج کرتے اس کے چہرے کو دیکھتے بولا جو اس کی بات سنتے سرخ ہوتے حیرت میں مبتلا تھا ۔
"
وہ دس لاکھ کا نقصان افورڈ نہیں کر سکتا تھا ۔۔!! مضحکہ خیز جبکہ اس لڑکی کے لیے اس نے کروڑوں کا نقصان اٹھایا تھا وہ بھی منٹوں میں "۔۔۔
"یہ تمھاری گھٹیا چال ۔۔!!
وہ بولتے بولتے رک گئی وجہ اس کا بجتا فون تھا اس نے اگنور کرنا چاہا لیکن فون بند ہوتے واپس بجنا شروع ہو چکا تھا ۔۔ اس نے بیگ سے فون نکالتے نمبر دیکھا رحمت کا تھا اس نے ایک سخت نظر بنا کسی خوف کے جازب کمال پر ڈالی جو آئی برو آچکا گیا اور خود فون کان کو لگایا ۔۔
"ک۔کیا ۔۔ کیسے ک۔کہاں پر میں آتی ہوں آپ پلیز وہی رہیے گا پلیز ۔۔!!"
وہ تیزی سے بغیر اسے کچھ بولے باہر نکل گئی سارا کچھ وہی کا وہی پڑا تھا رحمت کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ ہاسپیٹل میں تھی رحمت کے فون سے باسل احمد کی کال تھی ۔۔
جیسے کسی نے پہلے رحمت کے فون سے کال کرتے وہاں بلایا تھا اور ہاسپیٹل پہنچتے اس نے رحمت کے نمبر سے یمن وحید کو کال کی تھی ۔۔
ہاسپیٹل پہنچتے اس کے لبوں پر بس اپنی بہن کے لیے دعا تھی دل بری طرح لرز رہا تھا جیسے ابھی بند ہو جائے گا اور وہ ابھی اس دنیا سے رخصت ہو جائے گی ۔۔
ٹانگیں چلنے سے انکاری تھی لیکن وہ راہداری میں پھر بھی تیز قدموں سے چل رہی تھی وہ لڑکھڑا کر گرنے لگتی لیکن پھر سے اٹھ کر بھاگنے لگ جاتی ۔۔
"باسل احمد "۔۔!!
اس سے پانچ قدموں کے فاصلے پر رکتے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے دل حلق میں جیسے اٹک گیا تھا سانس سوکھ رہا تھا لڑیوں کے مانند بہتے اس کے آنسو باسل احمد کو عجیب لگے ۔۔
"یمن وحید "۔۔!!
وہ دھیرے سے بولا تھا اس کا کالا بیگ پاس پڑے بینچ پر پڑا تھا یمن تیزی سے اس تک گئی تھی آنسو اب بھی بہہ رہے تھے ۔۔
"رحمت کیسی ہے کیا کہا ڈاکٹر نے "۔۔؟؟
وہ تیزی سے بولی تھی آنسو اب بھی بہہ رہے تھے وہ اس کی بہتی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔
"ڈاکٹر ابھی اندر ہے اس کا کافی خون ضائع ہوا ہے ٹرک نے ٹکر ماری ہے "۔۔!!
وہ گھڑی کو دیکھتے مدھم لہجے میں بولا اسے کہی جانا تھا بہت ضروری لیکن وہ یمن وحید کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
"تم ڈرو مت میں یہاں موجود ہوں "۔۔!!
اپنے بجتے فون کو اگنور کرتے اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا لیکن وہ ڈر رہی تھی رحمت اس کی زندگی میں اکلوتی بچی تھی جو اس کی تلخ زندگی میں مسکرانے کی وجہ تھی ۔۔
تسلی ، دکھ کو روک نہیں سکتی اس کی بہن مر رہی تھی اور اگر کوئی اسے کہتا "کچھ نہیں ہوتا میں ہوں یہاں۔۔
" تو یہ نا کافی تھا کیوں کہ تسلی دینے والا کچھ پل ، کچھ دن درد محسوس کرتا ہے اور جس پر گزری ہو وہ ساری زندگی ۔!! تو تسلی نا کافی ہے ۔!!
وہ بینچ پر بیٹھے ہچکیوں سے رونے لگی تھی اس کی زندگی میں اس کی بہن آخری تھی ۔ "
اور جب آخری چیز ، رشتہ ، احساس ختم ہو جائے تو سب تمام ہو جاتا ہے پھر کچھ نہیں بچتا سوائے تلخ یادوں کے اور تلخ یادیں ۔۔! تلخ یادیں رفتہ رفتہ زندگی کو بھی تمام کر دیتی ہیں"۔۔۔
بار بار مسلسل بجتے موبائل پر بھی اس نے فون نہیں اٹھایا وہ وہی کھڑا رہا تھا اس کے قریب جب یمن نے بھیگی نظر اتھا کر اسے دیکھا اس کی نظریں ایسی تھی ۔۔۔!! کہ سامنے کھڑے مرد کا دل کیا وہ رو دے ۔۔
"
ضروری ک۔کال ہو گی ا۔ آپ اٹھا ل۔لے باسل احمد اور ج۔جانا ہے تو جائے "۔۔
اس نے با مشکل کہا وہ خاموش رہنا چاہتی تھی آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے دل خوف سے بھرا پڑا تھا وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی ۔۔
باسل احمد نے سائیڈ پر ہوتے کال پک کی تھی اور پھر یمن وحید کو دیکھا وہ ضروری کام سے شہر سے باہر جا رہا تھا جب رحمت کی خبر ملی اسے جانا تھا لیکن وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا ۔۔
"آپ جائے باسل احمد "۔۔!!
اس نے گالوں پر بکھرے آنسو صاف کیے تو مزید آنسو آنکھوں سے نکل گے وہ تلخی سے ہنسی ۔۔۔۔
"میں تمھیں چھوڑنا نہیں چاہتا میرے بہت پرانے کلائنٹ کے گھر ایشو ہوا ہے مجھے جانا ہو گا تم اپنا خیال رکھنا میں جلد لوٹ آؤں گا "۔۔!!
وہ دوزانوں بینچ کے پاس نیچے اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اس کا دل دکھا تھا وہ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن اسے جانا تھا ۔۔
یمن نے آنسوؤں سے بھری نظریں اٹھا کر اسے دیکھا وہ اٹھا اور کالا بیگ اٹھائے چلا گیا اس نے پلٹ کر سر ہاتھوں میں گرائی اس لڑکی کو دیکھا ۔۔
اسے اذیت ہوئی تھی خطرناک اور گہری اذیت ۔۔!!
ایک گھنٹے کے کھٹن انتظار کے بعد ڈاکٹر باہر نکلا تھا یمن تیزی سے اس کے پاس بھاگی تھی ۔۔۔
"میری چھوٹی بہن "۔۔۔!!
اس کی آواز کپکپا رہی تھی آنکھیں بے چین تھی وہ کچھ برا نہیں سننا چاہتی تھی دل دعا گو تھا شدت سے ۔۔
"ان کا آپریشن کرنا پڑے گا کافی گہری چوٹیں آئی ہے خاص کر دماغ میں اور ان کے دل کے قریب بھی گہرا گھاؤ ہے شاید کسی نوکیلی چیز سے وہ ٹکڑا گئی تھی آپ پیسے جلد از جلد جمع کروا دے ورنہ وہ ۔۔!!
وہ کہتے کہتے رک گے شاید اس لڑکی کی آنکھوں میں یکدم در آنے والے خوف سے اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
"کتنے پیسے ہے "۔۔۔؟؟
ٹوٹی آواز بکھرا لہجہ ۔۔۔!! سارے طوفان ایک وقت میں ہی اس تک پہنچ گے تھے وہ لڑ جانا چاہتی تھی رحمت اس کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت تھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔
"چھے لاکھ "۔۔۔!!
وہ بول کر چلے گے اور وہ ساکت ہو گئی ۔۔۔!! ایسے ہی وہ باسل احمد چلا گیا تھا ۔۔۔
تسلی دینے والے کچھ پل ساتھ رہتے ہیں اور اپنا سفر پھر سے شروع کر دیتے ہیں لیکن تسلیوں کو سننے والا وہ وہی کھڑا رہتا ہے راستے کے اسی کنارے ۔۔! جب تک کوئی ایسا نا مل جائے جو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے جائے نا کہ صرف تسلی دے کر چلا جائے ۔۔ وہ بیٹھ گئی اور آنسو بھی آنکھوں سے بہنے لگے اس کا دل بری طرح کانپنے لگا ۔!!
"کسی کو کھو دینا اذیت ناک ہوتا ہے دنیا کا سب سے اذیت ناک احساس "۔۔۔
"کیا کہا آواز بلند کرو اپنی "۔۔۔؟؟
ریوالونگ چئیر پر جھولتے اس نے میز کے پار رکھی کرسی پر بیٹھی لڑکی کو دیکھتے آئی برو آچکاتے تیز آواز میں کہا وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی وہ رونا چاہتی تھی ۔۔۔!! لیکن بے بس تھی ۔۔۔
"مجھے پیسے چاہیے "۔۔۔۔
اس نے اس بار آنسوؤں کا گلہ گھونٹتے بلند آواز میں کہا گود میں رکھے ہاتھ مڑوڑ ڈالے بولتے بولتے آخر میں اس کی آواز رندھ گئی ۔۔۔
"اور تمھیں کیوں لگتا ہے میں تمھیں پیسے دوں گا "۔۔؟
ٹیبل پر آگے کی جانب جھکتے اس نے کہنیاں ٹیبل پر ٹکائی یمن وحید نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور جازب کمال کو لگا وقت تھم گیا ہو ایسی اذیت اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔!! کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔
" مجھے ضرورت ہے میں تمھیں واپس ک۔ کر دوں گی"۔۔!!
نظریں واپس جھکائے وہ اذیت سے بولی وہ لہجے کو نارمل رکھنے کی پوری کوشش میں تھی لیکن اسے ایسا نا ممکن لگا ۔
اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی اور باسل احمد کا فون آؤٹ آف رینج بتا رہا تھا اس نے کئی بار کوشش کی تھی فجر کا اسے کچھ اتا پتا نہ تھا اگر ہوتا بھی تو وہ کیا کر لیتی ۔۔؟ یہ اس کا سوچنا تھا وہ مجبور ہو کر اس کے آفس میں آئی تھی جہاں وہ اس کے منہ پر اپنا استعفیٰ دے کر گئی تھی ۔۔
"تم مجھے واپس کرو گی ۔۔!! کیسے ۔۔؟؟
واپس سیدھا ہوتے اب اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی یمن سوچ میں پڑتی خاموش ہو گئی ۔۔
"تم نے تو جاب بھی چھوڑ دی ہے کیسے ادا کرو گی میرا قرض "۔۔۔۔؟؟
وہ پھر سے سوالیہ ہوا تھا نظریں اس کے ہولے سے لرزتے کانپتے وجود پر تھی جو ڈر سے یا غم سے لرز رہا تھا علم نہیں تھا ۔۔
"کیا ادا کر پاؤ گی میرا قرض ۔۔؟؟ میں تمھیں پیسے دے سکتا ہوں لیکن میری ایک شرط ہے ۔۔!!
اس نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے اس کے جھکے سر کو دیکھتے کہا اس لڑکی نے کبھی سوچا بھی نا تھا کہ وہ اس کے پاس ان حالات میں آئے گی ۔۔
لیکن ۔۔۔!! جو سوچا نا ہو وہی ہو جانا تو زندگی ہے ۔۔۔
اس کی بات پر اس نے فوراً سر اٹھایا وہ مان جائے گا اسے اندازہ نہیں تھا ان دونوں کے درمیان جو ہو چکا تھا اس کے بعد اس کا مان جانا عجیب تھا ۔۔
"میرے سائے تلے چھپ جاؤ ۔۔! مجھ سے نکاح کر لو "۔۔۔!!
ہاتھ چئیر کی بازو پر رکھتے اس نے بہت سنجیدگی سے کہا اس کی نظریں اس لڑکے کے چہرے کے تاثرات پر ٹکی تھی جو اس کی بات سنتے ہی حیرت میں مبتلا ہوتے ساکت ہو گیا تھا ۔۔
کیا وہ اس سے اس کی ذات کا سودا کر رہا تھا ؟
کیا وہ شخص اسے اذیت دینے سے باز نہیں آنے والا تھا ۔۔؟؟
وہ اسے دیکھتی رہی کئی پل بغیر پلک جھپکائے اسے فقط وہ شخص دِکھ رہا تھا باقی سب تو جیسے پیچھے چھوٹ گیا تھا اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے ۔۔
"تمھیں بھاگنے نہیں دوں گا ۔۔!! تمھیں پچھتانا ہے۔۔!!"
اس کے لب پھڑہھڑائے اور دل کو زخمی کرتے لفظ ادا کر گے اس کی آنکھیں سرد ہو گئی اس نے موبائل پر انگلیاں چلائی پھر واپس سیدھا ہو کر اس پر نظر ڈالی ۔۔
"جلدی بولو ورنہ تم جا سکتی ہو "۔!!
ریسٹ واچ کو دیکھتے اس نے پھر سے نظر اس کی ساکت آنکھوں پر ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی
وہ کہاں اس کے لفظوں سے ابھی باہر نکل سکی تھی ۔۔
"م۔مجھے منظور ہے "۔۔!!
وہ سر جھکا گئی کہ آنسو ٹوٹ کر گال پر بہتا گود میں گر گیا جبکہ اس شخص کی آنکھیں چمک اٹھی
"ہممم "۔۔!!
اس نے ہنکارا بھرا یمن وحید نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا کتنا بڑا اور بھاری معاوضہ تھا جو اسے ادا کرنا تھا ۔۔
"میں دنیا کے سامنے کبھی تمھیں اپنی بیوی قبول نہیں کروں گا "۔۔!!
وہ اسے دیکھتے اطمینان سے بولا اور اس پر جیسے آسمان گرا تھا وہ سانس روک گئی نظریں اس کے چہرے پر رک گئی دل بند ہونے لگا آنکھیں دھندلا گئی ۔۔
"یہ ایک گمنام رشتہ ہو گا ۔۔! دنیا کی نظر میں تمھاری ذات ایک سوالیہ نشان ہو گی "۔۔!!
اس کی بات پر اس کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ گیا آنکھوں میں آنسو اٹک گیا کان سائیں سائیں کرنے لگے نظریں اب بھی اس کے چہرے پر تھی ۔۔
" دنیا کی نظر میں میرا سٹیٹس ہمیشہ ان میریڈ ہو گا میں کسی یمن وحید نامی لڑکی کو نہیں جانتا "۔۔!!
وہ پھر سے بولا اور وہ اسے دیکھتی رہی کئی لمحے کہ لمحے عذاب بن گے اس کی ساکت آنکھوں سے آنسو کا ایک قطرہ گرا وہ تو اپنے سارے آنسو اس سے چھپا کر بیٹھی تھی
لیکن وہ شخص واقعی کمال کا تھا ہر معاملے میں۔۔!!
اور اس معاملے میں بھی وہ کمال کا ٹھہرا تھا وہ اسے اذیت دینے میں کمال کا ٹھہرا تھا ۔۔
"میں کسی یمن وحید نامی لڑکی کو نہیں جانتا "۔۔!
اس کے الفاظ ابھی بھی اس کے کانوں میں گونج رہے تھے استہزاء الفاظ ۔۔!! وہ کیسے یہ جملہ بول سکتا تھا کیا وہ واقعی "کسی یمن وحید نامی لڑکی " کو نہیں جانتا تھا ۔۔!! مضحکہ خیز
"کمال لوگوں نے مجھے کمال بہ مہارت سے برباد کیا ہے"۔۔۔!!
اس کے کانوں میں چار سال پرانے جملے کی گونج اٹھی دوسرا آنسو ٹوٹ کر گر گیا ذات کو کھو دینا تکلیف دیتا ہے ۔۔!!
وہ چار سال پہلے بھی صحیح تھی اور چار سال بعد بھی وہ صحیح تھی اس شخص نے کمال بہ مہارت سے اسے برباد کیا تھا ۔۔!!
"منظور ہے "۔۔؟؟
اسے کچھ بھی نا بولتے دیکھ وہ بولا ۔۔۔۔
اس کے الفاظ زبان پر آنے سے انکار کرنے لگے دماغ نفی کرنے لگا لیکن دل ہاسپیٹل میں موجود ایک مریضہ پر اٹکا تھا ۔!!
"منظور ہے "۔۔۔!
وہ بول گئی تھی آہہہہ اس نے خود کے ہاتھوں سے خود کو بے نشان کر دیا اس نے خودی کی ذات کو کھو دیا ۔!!
انسان بڑی عجیب مخلوق ہے ۔۔!! ہمیں خود سے زیادہ اپنے دل میں بسے لوگوں کی پرواہ ہوتی ہے ۔۔!!
اگر ہم تکلیف میں ہو اور کوئی دل میں بسا بھی تکلیف میں ہو تو انسان اپنے سے پہلے دل میں بسے ہوئے اپنوں کی تکلیف کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ خود کی ذات پر کمپرومائز کرتا ہے اور ۔۔!! یمن وحید نے بھی وہی کیا اس نے اپنی ذات سے پہلے اپنی بہن کو چنا اس نے اس کی تکلیف کا ازالہ کیا ۔۔۔
"سارے سٹاف کو چھٹی دے دو جلدی سات منٹ میں پورا سٹاف آفس سے باہر ہو اور آفس خالی ہو "
فون رکھتے وہ کرسی سے اٹھ گیا اس نے کوٹ ہمیشہ کی طرح درست کیا اس کی نظریں یمن وحید پر ہی جمی تھی جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی ۔۔
"میری بہن کو جلد ۔۔!!
"
"شروع ہو چکا ہے علاج بیس منٹ پہلے ہی "۔۔!!
اس کی بات کاٹتے اس نے آفس میں رکھے صوفے پر بیٹھتے ٹانگ پر ٹانگ جماتے مطمئن لہجے میں کہا ۔۔
وہ دو پل کو حیران ہوئی اتنا یقین تھا اس شخص کو کہ وہ ہاں ہی بولے گی ۔۔؟؟ اور دیکھو اس کا یقین سچ ثابت ہو گیا تھا اس لڑکی نے منظوری ہی دی تھی ۔۔!!
" جازب کمال وہ بڑا تیز بندہ تھا ۔۔!! لوگوں کو باتوں میں پھانسنے والا ۔۔!! انہیں مدعوں سے بھٹکا دینے والا۔۔!! لوگوں کی چال بازیوں سے واقف ۔۔!! سر پھرا خود غرض خونی "۔۔!!
"سر "۔۔!!
آصف نے دروازہ ناک کہتے ہلکی آواز میں اسے مخاطب کیا ۔۔
وہ صوفے سے اٹھا اور بھاری رعب دار قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا جو سر جھکائے نجانے کہا کھوئی تھی شاید زندگی کی تلخیوں میں ۔!!
"دوپٹہ ٹھیک کرو اپنا "۔۔!!
اس نے ہاتھ آگے بڑھاتے دو انگلیوں سے اس کا دوپٹہ اس کے پورے سر پر دیا جو آدھے سر پر تھا اس کی بات اور ہاتھوں کی حرکت پر وہ چونکی اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔
اس کے سر اٹھانے سے اس کی آنکھیں بھی پوری کھلی وہ اسے دیکھ رہی تھی جس نے اس کے سر پر دوپٹہ آگے کرتے اس کے بال چھپا دیے تھے ۔۔
"آ جاؤ"۔۔!!
اس نے آواز دی اور اس کے پاس سے ہٹ گیا آصف کے ساتھ چار سے پانچ لوگ اور مولوی صاحب اندر داخل ہوئے ۔۔
وہ آدمی سر جھکائے ایک طرف کھڑے ہو گے مولوی نے صوفے پر بیٹھتے یمن وحید کو دیکھا جو کچھ دور اب بھی کرسی پر بیٹھی تھی ۔۔
"لڑکی ادھر آؤ "۔۔!!
اس کا لہجہ ۔۔!! وہ لہجہ بدل گیا اور الفاظ بھی بدل گے تھے وہ پہلی بار اس سے اس طرح مخاطب تھا رعب دار آواز میں اس کے الفاظ الگ تھے ۔۔
وہ قدم اٹھاتی اس جانب بڑھی اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گر رہے تھے اور وہ ان آنسوؤں پر قدم رکھتی آگے بڑھ رہی تھی یہ خسارہ خود چنا تھا اس نے آہہہہ ایک مضحکہ خیز بے نام خسارہ ۔ وہ صوفے پر جا کر اس سے کافی فاصلے پر ٹک گئی سر جھکا ہوا تھا ۔۔
"یمن وحید ولد محمد وحید کیا آپ کو جازب کمال ولد محمد کمال خان کے ساتھ چھ لاکھ حق مہر سکہ رائج الوقت یہ نکاح قبول ہے "۔۔؟؟
مولوی صاحب نے ایک نظر اسے دیکھتے الفاظ دہرائے اس نے بے ساختہ جازب کمال کو دیکھا جو سپاٹ چہرہ لیے سامنے کسی غیر مری نقطے کو دیکھ رہا تھا ۔ یہ وہ روپے تھے جو اس لڑکی نے اس سے لیے تھے اور اسے ایسا لگا جیسے وہ اس رقم کے عوض اسے خرید رہا ہو ۔۔!!
وہ مولوی صاحب کو دیکھنے لگی اس کی آنکھیں ۔۔!! خالی ہو گئی ، ویران ، ہر جذبات کو سولی پر لٹکا دیا گیا وہ دیکھتی رہی کئی پل ۔۔
"قبول ہے ، ق۔قبول ہے ، ق قبول ہے "۔۔!!
لفظ لڑکھڑا گے ، خواہشات دب گئی ، زبان پر قفل لگا دیا گیا وہ لب دبائے آنسوؤں کا گلہ گھونٹ گئی ۔۔
"دعا ہے کہ تمھاری شکل کبھی دوبارہ نا دیکھوں "۔۔!
اس نے برستی طوفانی بارش میں یہ دعا اس کے منہ پر کی تھی اس نے اظہار کیا تھا اور وہ رد ہو گئی ۔۔!!
اسے لگا اللہ اس سے ناراض ہو گیا ہے اس کی دعا رد ہو گئی تھی ۔۔!!
"تم نکل کیوں نہیں جاتے میری زندگی سے ۔۔"؟؟
اپنی ماں کی موت پر اس نے چینخ کر اس شخص کو نکل جانے کو کہا تھا اس کے یاد کے پردوں پر الفاظ گونج اٹھے لیکن وہ واپس لوٹ آیا تھا اور اب ۔؟؟ اب وہ نہیں نکال سکتی تھی اسے ۔۔
"تم مر کیوں نہیں جاتے جازب کمال "۔۔!!
ایک اور جملہ اور اس بار وہ حیران تھی ہاں اس نے اس جملے کا جواب دیا تھا اسے یاد تھا اچھے سے یاد تھا ۔
"آمین"۔۔!!
اس نے بہت عجیب سا جواب دیا تھا بلکل خود کی طرح ۔۔!!
مولوی مقابل شخص سے بھی پوچھ رہا تھا لیکن وہ کہاں سن رہی تھی اس کے خود کی ذات کو قبول کرنے کو وہ تو بس دماغ میں گونجتی آوازوں میں الجھی تھی ۔۔!!
وہ اسکے نام لکھ دی گئی تھی اور وہ اسے گمنام کر گیا تھا ۔۔!
سب لوگ چلے گے تھے سوائے آصف کے وہ ویسے ہی بیٹھی تھی کیا وہ کمزور پڑ گئی تھی ۔۔؟؟
اگر یہ سوال تھا تو جواب تھا نہیں ۔۔!! بھلا کمزور لوگ بھی ایسے احساس فیصلے لیتے ہیں ۔؟؟
نہیں کمزور لوگ ایسے احساس فیصلے نہیں لے سکتے کبھی نہیں لے سکتے اور وہ کمزور نہیں تھی ۔۔
"آصف تمھاری آج کی یاد داشت تم کھو چکے ہو اور باقی سب بھی یہ زمہ داری تمھیں دیتا ہوں ۔!! اور جاؤ ہاسپیٹل چھوڑ کر آؤ اپنی میڈم کو "۔۔!!
اس نے موبائل دیکھتے اٹھتے ہوئے کہا اور قدم باہر کی جانب بڑھا لیے پھر پلٹ کر دیکھا آصف جھکی نظروں سے کھڑا تھا اور اسے اٹھنے کو بول رہا تھا یمن وحید زخمی وجود کے ساتھ اٹھی تھی وہ وہاں سے چلا گیا ۔۔
وہ کتنا عجیب تھا نا ۔؟؟
وہ اسے میڈم بول کر گیا تھا اپنے نام کے ساتھ باندھ کر گیا تھا جیسے گمنام رکھنے کی شرط رکھی تھی اس نے ۔!!
سر جھکائے یمن وحید آگے بڑھ گئی ۔۔!!
"جسم پر لگے زخم بھر جاتے ہیں وہ اگر نشان چھوڑ بھی دے تو وہ نشان درد نہیں دیتے لیکن ۔۔۔! روح پر لگے زخم وہ نہیں بھرتے اور اگر بھر بھی دیے جائے تو ان کے نشان درد دیتے ہیں اور پہلے سے دو گنا دیتے ہیں"۔۔۔۔۔
Amazing... Next episode, 🥰🥰
ReplyDeleteOutstanding...bht khobsurat Alfaz nh hn k kesy tareef ki jaye ...bht bht bht acha likhti hn ap bht bht acha ... likhti hn ❤️ yaman k sth acha nh hoa pr ap ny kia khooob likha h apka art of characterization bht kamal ka ha . Allah bless you,keep it up aysy hi likhti rhein ❤️ ALLAH apko lmbi sehat wli Zindagi de AmEEN 🤍🌼
ReplyDelete